محبت کی دیوی۔۔تحریر: اقبال حیات ؔ آف برغذی

Print Friendly, PDF & Email

اس کائنات میں انسان مختلف نوعیت کے باہمی رشتوں، ناطوں کے ڈور میں جڑھے ہوتے ہیں۔ اور اس بنیاد پر زندگی کا سفر محبت، امن وآشتی اور یگانگت کی دل اویزی سے لبریز جاری و ساری رہتا ہے۔ اگرچہ ان رشتوں کی نوعیت اور باہمی زندگی پر پڑنے والے ان کے اثرات مختلف ہوتے ہیں۔ جسکی وجہ سے بسا اوقات ان کے تقدس پامال ہوتے بھی نظر آتے ہیں۔ مگر اس گلشن حیات میں بیٹی کی صورت میں جنم لینے والا رشتہ زمانے کی گر دشوں سے بے نیاز مہرو محبت کی مہک سے انسانیت کو معطر کرنے میں سر گردان عمل رہتا ہے۔ اور اس رشتے کا تقدس دنیاوی اغراض اور مقاصد سے بہت کم متاثر ہوتا ہے اور یوں بدلتے ہوئے حالات کے باوجود صرف یہی رشتہ مطلب پرستی سے بے نیاز محبت کی روشنی سے منور ہے تاریخ انسانت کے اندر محبت کی یہ دیوی عار سمجھ کر زندہ درگور ہونے کی کیفیت سے بھی دوچار رہی ہے۔ اور اسے انسانیت کے زمرے سے بھی خارج کرنے جیسے قبیح فعل کے ارتکاب بھی ہوئے ہیں۔ مگر میرے عظیم پیغمبر ﷺ کی بعثت نے اس کے وقار کو اتنا اونچا کیا کہ دنیا کی کوئی تہذیب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اس کی پیدائش کو رحمت خداوندی سے تعبیر کیا۔ اور دو بیٹیوں کی پرورش دلجمعی اور خوشی کے ساتھ انجام دینے اور انہیں اسلامی تعلیم و تربیت سے مزین کرنے والے کو دو انگلیوں کی رفاقت کے مماثل قیامت کے دن اپنے ساتھ ہم نشینی کے اعزاز سے نوازے جانے کی نوید سنائے ہیں۔
مگر آج بدقسمتی سے چترال کی حد تک محبت کی اس دیوی کے حقوق سلب ہونے کے باوجود بیٹی لفظ کی مٹھاس میں کمی نظر نہیں آتی۔ وراثت میں اسکی حصہ داری کو نظر انداز کرنے اور اس کے مسلمہ حقوق کی پاسداری کا خیال نہ کرنے کے باوجود وہ رشتے کے اندر سرد مہری پیدا کرنے سے حتی الامکان احتراز کرتی ہے۔ لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بیٹی کو میراث میں اپنے حصے پر قابض ہونے کے بعد فیصلے کے بغیر اسکی خاموشی کی بنیاد پر حق سے محروم کرنے کی صورت میں قیامت کے دن خداوند قدوس کی گرفت سے بچنے کی گنجائش نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بیٹی کے لئے جیوں ساتھی کے انتخاب کے سلسلے میں اسکی رائے معلوم کرنے کے بنیادی حق کو بھی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور یوں اسکی قسمت کا فیصلہ کرتے وقت اس صنف نارک کو بکاؤ مال کا روپ دیا جاتا ہے۔ اور یوں محبت کی اس دیوی کو نوخیزی میں ہی عمر رسیدہ بوڑھوں کے بندھن میں دیکر ہوس زر کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور ہمارے گلشن کی ان خوبصورت کلیوں کو مسلنے کے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔ اور دوسری طرف اپنی مرضی سے اپنے لئے شریک حیات کے انتخاب کو اپنے ناک کٹنے کے مترادف سمجھ کر اسے گھر کی دہلیز پر دوبارہ قدم رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ علاوہ ازین خاندان کے اندر بیٹی زیادہ ہونے اور بیٹے سے محرومی کی صورت میں ا ن کے ساتھ طرز سلو ک میں ھتک اور اھانت کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ جس سے انکی دل آزادی کے ساتھ وہ خود سے نفرت کی کیفیت سے دوچار ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں اس اسلامی تصور کو فراموش کیا جاتا ہے۔ جو قرآن کی صورت میں ہمیں دیا گیا ہے۔ کہ اللہ رب العزت جسے چاہیں بیٹی دینگے، جسے چاہیں بیٹے دیں گے۔ یا بیٹے اور بیٹی دونوں ایک ساتھ دینگے اور جسے چاہیں بانچھ کرینگے۔ اس ربانی حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا کا مل ایمان کی علامت ہے۔ کیونکہ رب کائنات کے فیصلے میں انسان کیلئے کوئی نہ کوئی منفعت پنہان ہوتا ہے۔ ایک شخص 6/چھ بیٹوں کے بعد ساتویں اولاد کی امید کے دوران اپنی اہلیہ کو متنبہ کر تے ہیں۔ کہ اس بار بھی بیٹی ہوئی تو سوکن سے تمہارا واسطہ پڑے گا۔وہ خاتون رارو قطار رونے کے بعد کہتی ہیں کہ میرے مقدر میں میرے رب نے جو کچھ لکھا ہے اس کے سامنے سر تسلیم خم کروں گی۔ اسی رات خواب میں اس شخص کو ایک فرشتہ پکڑ کر دوزخ میں ڈالنے کے لئے دروازے کی طرف لیجاتے ہیں وہاں پر کھڑی ایک بیٹی اس کے گلے میں باہیں ڈال کر دوزخ میں ڈالنے سے بچا لیتی ہیں۔ فرشتہ اسے دوسرے دروازے کی طرف لیجاتے ہیں تو دوسری بیٹی وہاں کھڑی نظر آتی ہے۔ اعلیٰ ھذ القیاس دوزخ کے 6/چھ دروازوں پر کھڑی بیٹیاں باپ کو بچانے میں کردار ادا کرتی ہیں۔ جب ساتویں دروازے کی طرف اسے لیجایا جاتا ہے۔ تو وہاں پر کوئی بیٹی نہ ہونے کے تصور میں اس سے چیخ نکلتی ہے۔ اور وہ بیدار ہوتے ہیں۔ فوراً اٹھکر وضو کر کے 2/دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد اپنی اہلیہ سے معافی مانگ کر خدا سے متوقع اولاد بیٹی کی صورت میں مرحمت فرمانے کی التجا کر تے ہیں۔
مختصر یہ کہ وفا اور محبت الفاظ کو اگر حقیقت کے روپ میں دیکھنا ہے تو وہ بیٹی کی ذات ہے۔