قائد کی رہائش گاہ اور اِس کی تاریخ۔ چودہ اگست کے حوالے سے ایک تاریخی تحریر۔۔ اداریہ ( چترال میل ڈاٹ کام ) پڑھئے دلچسپ معلومات

Print Friendly, PDF & Email

( اداریہ چترال میل ڈاٹ کام)قائدِاعظم محمد علی جناح کی ساری قوم ممنون ہے کہ انہوں نے ہمیں پاکستان جیسی سرزمین عطا کی۔ یہی پاکستان ہے جہاں ہم آج مکمل آزادی کے ساتھ سُکھ کا سانس لے رہے ہیں، مگر جس شخصیت نے ہمیں اسلامی مملکت سے نوازا وہ خود ذوق و شوق رکھنے کے باوجود اِس مملکت خداداد میں اپنے لئے کوئی عمارت تعمیر نہ کروا سکے۔ اگرچہ انہوں نے فاطمہ جناح روڈ پر واقع بنگلہ نمبر 241 خریدا، لیکن وہاں بھی قائداعظم کو رہائش کا موقع نہیں مل سکا، لیکن ہاں اِس بنگلے میں اُن کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے زندگی کے کچھ دن ضرور گزارے۔ یہ بنگلہ 10 ہزار 2 سو 14 گز پر محیط ہے جسے اُس وقت کے معروف آرٹیکٹ ایچ سوماک نے اپنی رہائش کے لئے تعمیر کیا تھا اور اُن کی وفات کے بعد اِس حویلی نما بنگلے میں معروف صنعتکار رام چند کچھی لوہانا اور سہراب کٹرک نے بھی کچھ دن رہائش اختیار کی۔ جس وقت یہاں برطانوی ںظام رائج تھا تو برطانوی فوج سندھ کے کمانڈنگ آفیسر جنرل ڈگلس گریسی جو کہ قیام پاکستان کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف مقرر ہوئے، اُن کے علاوہ جنرل ہارٹ نے بھی اِس عمارت میں رہائش اختیار کی۔ اِسی بنیاد پر اِس عمارت کو کبھی بنگلہنمبر 8، کبھی فلیگ اسٹاف ہاؤس اور اور اُجڑ جانے کے بعد اِسے بھوت بنگلے کے نام سے بھی یاد کیا جاتا رہا ہے۔ انتہائی نفیس طبیعت کے مالک قائد اعظم محمد علی جناح کی 1943ء میں جب نظر اِس دیدہ زیب عمارت پر پڑی تو وہ دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور بالاآخر انہوں نے یہ بنگلہ وقت کے معروف ترین شخص سہراب کٹرک سے 1 لاکھ 15 ہزار روپے میں خریدنے کا سودا کرلیا اور بیانے کی رقم کے طور پر 5 ہزار روپے ادا کئے۔ چونکہ یہ بنگلہ اب قائد اعظم کا ہوچکا تھا، اِس لیے برطانوی فوج سندھ کے کمانڈنگ آفیسر جنرل ڈگلس گریسی 435 روپے ماہوار پر قائد اعظم کے کرائے دار بن گئے۔ قائدِاعظم کو یہ بنگلہ بہت پسند تھا مگر پاکستان کے حصول کی جدوجہد کے سبب وہ یہاں رہائش اختیار نہیں کرسکے اور جب پاکستان بن گیا تو گورنر جنرل ہونے کے ناطے انہیں گورنر ہاؤس میں رہنا پڑا۔ پھر قائدِاعظم کی زندگی نے اُن سے وفا نہیں کی اور وہ 11 ستمبر 1948ء کو وفات پاگئے۔ قائدِاعظم کی وفات کے بعد ہمشیرہ فاطمہ جناح کو گورنر ہاؤس چھوڑنا پڑا اور انہوں نے اپنے بھائی کی محبت میں اِس عمارت میں رہائش اختیار کرلی اور 1964ء تک وہی یہیں رہائش پزیر رہیں۔ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے خلاف انتخاب بھی یہیں سے لڑا مگر جب انتخابی دھاندلیاں ہوئی تو انہوں نے موہٹا پیلس میں رہائش اختیار کرلی اور 1967ء میں اپنی وفات تک یہیں مقیم رہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کے انتقال کے بعد یہ بنگلہ مزید ویران ہوگیا اور اِس کی حالت زار کی وجہ سے بھوت بنگلے کے نام سے پہچانا جانے لگا۔ نیشنل شپنگ کارپوریشن، نیشنل بینک آف پاکستان اور کئی دوسرے اداروں نے اِس عمارت کو خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر ٹرسٹی آف جناح نے بیچنے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں حکومت نے یہ بنگلہ ٹرسٹی آف جناح سے 51 لاکھ 7 ہزار روپے میں خرید کر اِسے قومی ورثہ قرار دے دیا اور پھر اِس بنگلے کو قائدِاعظم ہاؤس میوزیم کا نام دے کر 1993ء میں عوام کے لئے کھول دیا گیا۔ یہ دو منزلہ عمارت 10 ہزار 2 سو 14 گز پر محیط ہے، جس میں نچلی اور اوپری منزل پر 12 کمرے، کچن بالکونی سمیت 8 سرونٹ کوارٹر ہیں جسے محکمہ آثارِ قدیمہ نے قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے زیرِ استعمال فرنیچرز و دیگر ساز و سامان سے کچھ اِس طرح آراستہ کر رکھا ہے کہ دیکھنے والا یہ محسوس کرتا ہے کہ قائدِاعظم اور فاطمہ جناح چہل قدمی کے لئے ابھی ابھی اپنے کمروں سے نکل کر گئے ہیں۔ یہ بنگلہ اِن دنوں محکمہ ثقافت، سیاحت و نوادرات کے زیر نگرانی ہے اور آج بھی یہاں بانی پاکستان اور اُن کی ہمشیرہ کے دہلی میں اورنگزیب روڈ پر زیرِ استعمال رہائش گاہ سے لایا گیا سامان موجود ہے جس میں کشمیری فن سے مزین ہاتھی کے دانت سے بنے ٹیبل لیمپ، انگلستان کی نفیس کراکری، قائداعظم کے تعارفی کارڈ، کافور کی لکڑی کے باکس، صوفے، کرسیاں، ٹیلیفون، قرآن کریم کے نسخے، ڈائننگ ٹیبل، صندل کی لکڑی کے سگار کے باکس موجود ہیں جو کہ قائد اعظم کی نفاست کی گواہی دے رہے ہیں