چترال کی ضلعی حکومت نے اسیران توہین رسالت پر وحشیانہ تشدد پر چترال پولیس کے ذمہ داروں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے جوڈیشل انکوائیری کا مطالبہ کر دیا۔

Print Friendly, PDF & Email

چترال(نمائندہ چترال میل) چترال کی ضلعی حکومت نے اسیران توہین رسالت پر وحشیانہ تشدد پر چترال پولیس کے ذمہ داروں کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے جوڈیشل انکوائیری کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ضلع ناظم حاجی مغفرت شاہ،ضلع نائب ناظم مولانا عبد الشکور،امیر جماعت اسلامی چترال مولانا جمشید احمد، مولانا حسین احمد ،امیرعالمی مجلس تحفظ نبوت ضلع چترال وسیکرٹری اطلاعات جے یوائی ضلع چترال اور مولانا اسرار الدین الہلال نے درجنوں شہریوں کے ہمراہ اتور کے روز چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال پولیس نے توہین رسالت کے واقعے میں اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے شمع رسالت کے پروانوں پر وحشیانہ تشدد اور اُن کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات درج کرکے اُنہیں ڈیرہ اسماعیل خان کے جیل میں ڈالا گیا تھا۔اُن کا جرم صرف اتنا تھا کہ اُنہوں نے اپنے پیغمبر ﷺکے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہوئے ملعون کے خلاف جلوس نکالا تھا جو کہ ایک مسلمان کا شیوہ ہے۔ چونکہ مقامی پولیس اور خاص طورپر ڈی۔پی۔او چترال نے مقدمہ ہذا کے سلسلے میں ایک فریق کا کردار ادا کرکے نہ صرف عاشقان رسولؐ کے خلاف سنگین نوعیت کے دفعات لگائے بلکہ 21اپریل سے28اپریل تک گرفتار شدگان کو انتہائی تشدد کا نشانہ بنایا اور قانون کے مسلمہ اصول جس کی روسے کسی بھی گرفتار شدہد فرد کو چوبیس گھنٹوں کے اندر عدالت کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوتا ہے کو یکسر نظر انداز کیا اور پولیس گردی کی بد ترین مثال قایم کر دی ۔لہذا اس پریس کانفرنس کے ذریعے ہم صوبائی حکومت اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے اپیل کی جاتی ہے کہ غیر قانونی گرفتاریوں،وحشیانہ سلوک اور اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے لوگوں پر بے جاطورپرسنگین دفعات لگاکر اُنہیں قیدوبند رکھنے کے جرم پر چترال پولیس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان کے ذریعے جوڈیشل انکوائری کراکے قرار واقعی سزا دی جائے۔اُنہوں نے مزید کہا کہ وہ ملعون شخص جس کی شیطانی حرکت سے اس قدر مسائل اُٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو اذیتیں سہنی پڑیں۔جوکہ اس ساری کہانی کا مرکزی کردار ہے۔اس کے عدالتی ٹرائل کے حوالے سے بھی لوگ عدم اطمینان کا شکار ہے لہذا صوبائی حکومت سے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد ٹرائل کے ذریعے توہین رسالت کے ملزم کو منطقی انجام تک پہنچانے میں کردار ادا کریں اُنہوں نے کہا کہ اسیران کی رہائی کے لئے ہم نے صوبائی سطح پر زبردست جدوجہد کی۔ وزیر اعلیٰKPKپرویز خٹک،سنیٹر عطاء الرحمن،انسپکٹر جنرل آف پولیس KPKسے ملاقات کرکے اسیران کے خلاف لگائے گئے 7 ATAسمیت دیگر دفعات ختم کرائے۔جس کے بعد اسیران کی رہائی ممکن بنی جنہیں گزشتہ روز ڈسٹرکٹ جیل چترال سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔اُنہوں نے وزیر اعلٰی KPKآئی جی KPKاور سنیٹر عطاء الرحمن ، سابق ممبر قومی اسمبلی مولانا عبد الاکبر چترالی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہاُن کی کے تعاون اور کوششوں سے اسیران ناموس رسالت کے پروانوں کی رہائی ممکن ہوئی۔اُنہوں نے کہا کہ چترال کے کچھ عناصر کو مقامی پولیس نے استعمال کرتے ہو ئے اسیران کی رہائی کے کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔چترال کے یہ میر صادق اور میر جعفر بہت جلد عوام کے سامنے بے نقاب ہونگے۔اُنہوں نے کہا کہ چترال پولیس نے اسیران کو دوران قید انتہائی ٹارچر کرتے ہوئے ذہنی طور پر نقصان پہنچایا ہے۔اُنہوں نے کہا کہ جوڈیشل انکوائیری کرکے ذمہ داروں کو اگر سزا نہ دی گئی تو اس کے سنگین نتائج بر امد ہونگے جس کا چترال جیسا ضلع متحمل نہیں ہو سکتا۔