ماہ صیام روزے دار کے لیے سرتاپا برکات و ثمرات،طبی فوائد سے لبریز۔ دیکھئے تفصیلی رپورٹ

Print Friendly, PDF & Email

روزے پر جدید طبّی تحقیقات کا سلسلہ 1974 سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے جس کے دوران صحیح معنوں میں سر سے لے کر پاؤں تک روزے کے فوائد باقاعدہ تحقیق سے ثابت کیے جاچکے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے جسم کا ایک ایک حصہ روزے کی برکات سے فیض یاب ہوتا ہے جبکہ روح پر روزے کے اثرات کا شمار ہی ممکن نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ انسانی جسم کے کون کونسے حصے پر روزہ کس طرح اثرانداز ہوتا ہے۔
جگر
انسانی جسم کا ’ویئر ہاؤس‘ یعنی جگر وہ عضو ہے جو دوا سے لے کر غذا تک کو ہضم کرنے اور جزوِ بدن بنانے کے لیے ضروری مادّے خارج کرتا ہے۔ اسی لیے جو کچھ بھی ہم کھاتے ہیں، اسے ہضم کرنے کیلیے جگر کو فوراً ہی کام شروع کرنا پڑتا ہے اور یوں یہ اہم عضو پورا سال بہت کم آرام کر پاتا ہے۔ روزے کی حالت میں کھانے پینے سے مسلسل کئی گھنٹوں تک پرہیز، اور وہ بھی پورے ایک مہینے کے لیے، جگر کو آرام دیتا ہے اور وہ اس ایک مہینے میں تر و تازہ ہو کر آئندہ پورے سال کے لیے خود کو تیار کر لیتا ہے۔
اس کے علاوہ حالیہ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ روزے کی بدولت جسم میں انسولین کی حساسیت بڑھتی ہے، انسولین مزاحمت میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ خون میں گلوکوز (شکر) کی مقدار بھی کنٹرول میں رہتی ہے۔ دوسری جانب اگر ایک لمبے عرصے تک روزے رکھے جائیں تو جگر میں محفوظ شدہ ”گلائیکوجن“ نامی مادّے کی مقدار بھی کم ہونے لگتی ہے، جگر کے ارد گرد جمع شدہ چربی کم ہوجاتی ہے جس سے ”کیٹونز“ کہلانے والے مرکبات خارج ہوتے ہیں جنہیں پٹھوں کے خلیات اور اعصابی خلیات حصولِ توانائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح جگر پورے مہینے کی ’اوورہالنگ‘ سے گزرتا ہے جس سے نہ صرف خود جگر کو بلکہ کم و بیش پورے جسم کو فائدہ ہوتا ہے۔
مدافعتی نظام (امیون سسٹم)
قدرت نے ہمیں بیماریوں سے بچانے والا نظام عطیہ کیا ہوا ہے جسے ”مدافعتی نظام“ (اِمیون سسٹم) کہا جاتا ہے۔ روزے رکھنے کی بدولت اس نظام سے وابستہ ”ٹی خلیات“ (T-cells) کو تبدیل ہو کر خود کو بہتر بنانے کا موقعہ ملتا ہے جبکہ مدافعتی نظام میں غیر ضروری طور پر پیدا ہونے والا ردِ عمل قابو میں آتا ہے اور بڑھتی عمر کی بنائپر کمزور پڑتے ہوئے مدافعتی نظام کو بھی مضبوطی حاصل ہوتی ہے۔
روزے کے دوران مدافعتی نظام سے وابستہ تمام اقسام کے خلیات کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور جب افطاری کے بعد کھانے پینے کا معمول بحال ہوتا ہے تو ان خلیات کو تخلیق کرنے والے خلیاتِ ساق (cells stem) خود سرگرم ہو جاتے ہیں اور ان کی جگہ لے لیتے ہیں۔ یوں جگر کی طرح امیون سسٹم کو بھی روزوں میں آرام ملتا ہے جس سے اس کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے اور یوں یہ باقی سال میں بیماریوں کے خلاف جسم کی بہتر حفاظت کرتا ہے۔ کئی طبّی مطالعات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جلن کا باعث بننے والے ”سائیٹوکائن“ مرکبات کا اخراج بھی روزوں میں بہت کم ہوجاتا ہے۔
دل
روزے کے دوران جسم کو غذا نہ ملنے کی وجہ سے جسم میں موجود چکنائی استعمال ہونے لگتی ہے جس کی بدولت کولیسٹرول سمیت مختلف اقسام کی جسمانی چکنائی کم ہونے لگتی ہے۔
البتہ یہ سارے مشاہدات جانوروں کو فاقے میں مبتلا رکھ کر دیکھے گئے ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ متوقع طور پر انسانوں میں بھی روزہ رکھنے کے ایسے ہی اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔
دماغ
چوہوں پر کیے گئے مطالعات سے معلوم ہوا ہے کہ جب انہیں وقفے وقفے سے پورے دن کے لیے بھوکا رکھا گیا تو اس سے ان کی یادداشت، اکتساب اور نئے دماغی خلیات بننے جیسے امور بہتر ہوئے جبکہ ان میں فالج کا خطرہ بھی بہت کم رہ گیا۔
چونکہ چوہوں کا ماڈل بھی انسانی جسم کے قریب تر ہوتا ہے اس لیے ماہرین کو امید ہے کہ کم و بیش ایسے ہی نتائج کسی انسانی مطالعے پر بھی حاصل ہوں گے۔
کینسر
چوہوں پر کیے گئے ایک اور تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر دن کے چند گھنٹوں کے لیے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا جائے اور یہ معمول چند روز تک برقرار رکھا جائے تو کھال اور چھاتی کے سرطانوں کے پھیلنے کی رفتار سست پڑجاتی ہے جبکہ کیموتھراپی میں استعمال ہونے والے زہریلے مادّوں کی بھی کم مقدار درکار ہوتی ہے۔
لمحہ فکریہ
روزے (یعنی دن میں چند گھنٹوں کے لیے کھانا پینا چھوڑ دینے) کے اثرات پر ہونے والی تحقیق کا مختصر احوال آپ نے ملاحظہ کیا۔ اس سارے معاملے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ روزے کے حوالے سے یہ ساری تحقیقات ترقی یافتہ مغربی ممالک میں رہنے والے غیرمسلموں نے انجام دی ہیں جن میں مسلمانوں کا کوئی حصہ نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عام طور پر طبّی تحقیقی لٹریچر میں روزے اور فاقے کے مابین کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔ اس کے باوجود، دن کے اوقات میں کم کھانے پینے کا معمول اختیار کرنے کے جتنے بھی طبّی فوائد ہیں، وہ روزے کی بدولت کہیں بہتر طور پر حاصل ہوتے ہیں اسی لیے انہیں ”روزے کے طبّی فوائد“ کہہ کر مسلمان خود کو تسلی دے لیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان طبّی ماہرین بھی روزہ رکھنے کے عمل پر سنجیدہ سائنسی تحقیق کریں تاکہ روزے کے طبّی فوائد کہیں بہتر طور پر دنیا کے سامنے لائے جاسکیں۔ غیروں کی تحقیق پر اپنے عقیدے کا جھنڈا گاڑنا کوئی پسندیدہ روِش ہرگز نہیں جسے بدلے بغیر اْمتِ مسلمہ صرف دوسروں کی محنت پر عیاشی کرنے والی صارف قوم ہی رہے گی۔
اس رمضان حضور ﷺ کے پسندیدہ مشروب کو استعمال کریں
رمضان کا مقدس مہینہ دوسرے عشرے میں داخل ہوچکا ہے اور روزے دار بھی نئے معمولات میں ڈھل چکے ہیں۔
مگر کیا آپ اس رمضان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تجویز کردہ مشروب استعمال کرنا پسند کریں گے جو کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چند پسندیدہ مشروبات میں سے ایک تھا؟
اسے نبیض کہا جاتا ہے جو کہ کشمش یا کھجوروں کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے اور اس کے حوالے سے کئی احادیث بھی موجود ہیں۔
جیسے سنن ابو داﺅد میں درج ہے‘ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے پوچھا اللہ کے رسول ﷺآپ ہمیں جانتے ہیں، کہاں سے تعلق اور کہاں سے آئے، ہمارے پاس انگور ہیں، ہمیں ان کا کیا کرنا چاہئے۔ اللہ کے رسول نے کہا کہ ان کی کشمش بنادو۔ اس کے بعد ہم نے پوچھا کہ ہم ان کشمش کا کیا کریں؟ انہوں نے جواب دیا کہ انہیں صبح بھگو کر رکھ دینا اور شام کو پی لینا، اور انہیں شام میں بھگو دینا اور صبح پی لینا، زیادہ تاخیر نہ کرنا ورنہ وہ سرکہ بن جائے گا’۔
نبیض کو بنانے کا طریقہ
چھ یا سات کھجوریں (عجوہ) یا مٹھی بھر کشمش لیں۔
چھ سے آٹھ اونس پانی۔
نماز عشائکے بعد ان کشمش یا کھجوروں کو پانی میں بھگو دیں۔
انہیں رات بھر کمرے کے درجہ حرارت میں فجر کے وقت تک بھگوئیں رکھیں۔
اس کے بعد کشمش یا کھجوروں کو نکال دیں اور پانی پی لیں۔
اس مشروب کو چائے کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے مگر اس پانی میں اجزائکو دو سے تین دن سے زیادہ بھگو کر نہ رکھیں کیونکہ اس کے بعد وہ سرکہ بن سکتا ہے۔
چونکہ یہ سنت رسول صلی اللہ و آلہ وسلم ہے تو اسے سحری کے وقت استعمال کیا جاسکتا ہے، اس مشروب کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پیٹ کے اندر تیزابیت کو ختم کرتا ہے اور نظام ہاضمہ کے لیے بہترین ہے کیونکہ یہ میٹابولک کچرے کو جسم سے خارج کرتا ہے۔
اسی طرح اس میں حل نہ ہونے والے فائبر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جو کہ ہاضمے کو بہتر کرتا ہے جبکہ یہ مثانے، سینے، گلے، جگر اور دیگر اعضائکے افعال کو بھی بہتر بناتا ہے۔